ڈاکٹر شہزاد کی تازہ ترین تصانیف


پاکستان: سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب کی ضرورت -

کیا پارلیمانی نظام پر مشتمل جمہوری حکومت پاکستان سے بد عنوانی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھ سکتی ہے؟ -

ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کا رپورٹ شدہ اور کئی اخبارات میں شائع ہونیوالا مضمون -

ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان اور کئی اخبارات میں شائع شدہ ایک انٹر ویو -



پاکستان: سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب کی ضرورت
تحریر شہزاد لطیف ، پی ایچ ڈی (سیاسی معیشت دان)۔


جب سے میں سن بلوغت تک پہنچا ہوں، یہی باتیں سن رہا ہوں کہ بد عنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔ اور پاکستان میں ایک بڑا انقلاب آ رہا ہے۔

کیا برائے مہربانی کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ انقلاب کب آ رہا ہے اور اسے کون لائے گا؟

مجھے یقین ہے کہ یہی وقت انقلاب کا ہے اور ہر فرد واحد کو اس انقلاب میں حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس انقلاب کوانتہائی جامع اور مکمل ہونا چاہئیے۔ قوم کی تمام کوتاہیوں کا مناسب حل نکالا جانا چاہئیے، سیاسی، معاشی اورمعاشرتی تبدیلیوں کے ہر پہلوپر توجہ دی جانی چاہئیے


:سیاسی انقلاب

ایک بات یقینی ہے ۔ ۔ جب تک ہم جمہوریت کے پارلیمانی نظام کے راہ پر چلتے رہیں گے ہم کوئی تبدیلی نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ یہ نظام بد عنوان سیاست دانوں کیلئے" کہ تم میرا کام کرو میں تمہارا کام کروں گا" کی بنیاد پر قائم ہے۔ بد قسمتی سےیہ مخصوص نظام بہت سے ممالک میں ایسا ہی ثابت ہو چکا ہے۔

ایک تشکیل شدہ حکومت جسے پارلیمنٹ میں ووٹوں کی اکثریت حاصل ہو(چاہےاشتراکی یا واحد جماعتی) بد عنوان طریقہ عمل اور اپنے حامیوں کے بد عنوان اعمال کو نظر انداز کرتے ہوئے،اقتدار میں موجود رہنے کی کوششں کرتی ہے۔ چنانچہ اسطرح حکومت میں شامل تمام لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اوراس نظام کے تحت سیاسی جماعتیں اس حجت میں پڑی رہتی ہیں کہ وہ کس کی حمایت کریںبجائے کہ عوامی مسائل پر توجہ دیں۔

پاکستان بد قسمتی سے پارلیمانی طرز جمہوریت کے دلدل میں پھنس چکا ہے۔ میں اسے دلدل کہتاہوں کیونکہ جب تک منتخب شدہ پارلیمانی نظام میں تبدیلی کیلئے آئین میں تبدیلی نہیں لاتے، کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں آئے گی۔ تاہم، بہت سے سیاستدان اس نوعیت کی کوششوں کی مزاحمت کریں گے کیونکہ یہ نظام انھیں ان کی طاقت سے محروم کر نے کے مترادف ہے۔ ان متخب شدہ راہنمائوں کو اسطرح کی تبدیلیاں لانے کا واحد راستہ وکلاء کی تحریک ہے، ویسا ہی عمل جو ہم نے قریباً د و سال قبل دیکھا تھا۔ جبکہ صحافیوں اورطلباء کو بھی اس مقصد کیلئے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔

اس پارلیمانی نظام کی جگہ جمہوریت کے صدارتی نظام کو نافذ کرنے کی ضرورت ہےاگر ہم واقعی ایک جمہوری ملک کے طور پر برقراررہنا چاہتے ہیں۔ دیکھیں، پاکستان میں ہمیں کم از کم ایک تو ایسا شخص ملے گا جو ایمانداراورمخلص ہو اورجو ملک کی ایک بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کر سکے۔ وہ شخص لوگوں میں سے ایسے وزراء بھی سامنے لا سکتا ہے جن کے دل میں ملک کیلئے درد ہو اور وہ ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہوں۔

صدارتی نظام میں بہتر طور پر چیک اینڈ بیلنس موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر اختیارصدر ہی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ نظام اسلامی خلافت طرزحکومت کے بھی انتہائی قریب ہے۔ صدرکو لوگ براہ راست منتخب کرتے ہیں۔ کوئی بھی شخص جو قوم پر اپنے ذاتی مفادات کوترجیح دے کسی بھی طرح عہدے پر نہیں پہنچ سکتا۔ لوگ اس شخص پر تنقید کر سکتے ہیں جومکمل طور پر منتخب شدہ ہو بجائے اس شخص کہ جسے پالیمینٹیرینز نے اپنے لئے زیادہ موزوں ہونے کی وجہ سے متعین کیا ہو۔

مزید برآں اس نظام کے تحت، لوگ اپنے نمائندوں کے طور پر پارلیمینٹیرینز( جو مجلس شوری کے ممبران) کو بھی منتخب کرتے ہیں۔ تاہم وہ ایسے لوگوں کو منتخب کر سکتے ہیں جو ایک موثر چیک اینڈ بیلنس مہیا کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے علاقائی مسائل بھی فورم میں لائیں۔

صدارتی نظام کے تحت صدر ایسے نمائندوں کو وزیر کے طور پر متعین کرتا ہے جن کی ان امور میں مہارت ہو ناکہ جنھوں نے حکومت بنانے میں مدد دی ہو۔ صدر پر کوئی دبائو نہیں ہوتا کہ وہ ایک بھاری بھرکم کیبنٹ بنائے اور اسطرح بے جا مالی بوجھ کا سبب بنے۔

اسی طرح صدر کو مسلح افواج کا بھی کمانڈران چیف ہونا ضروری ہے۔ جس سے مارشل لاء کا خطرہ بھی ہمیشہ کیلئےٹل جائے گا۔ اوربےجا اسرافی دفاعی بجٹ بھی اختیار میں لایا جا سکے گا۔ یہ نظام صوابدیدی اختیارات میں بھی تخفیف کرے گا جو مبینہ بدعنوانی کی جانب لے جاتے ہیں۔

ہم پچھلےتریسٹھ ۶۳ سالوں میں پارلیمانی نظام اوراس کے اثرات و نتائج کا تجربہ کر چکے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ نظام کی تبدیلی کیلئے جدوجہد کی جائے۔

صحافی، طلباء اور وکلاء کو راہبری کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور وہ پارلیمانی وہ پارلیمانی ممبران کو مجبور کر دیں کہ وہ آئین میں تبدیلی کریں۔ تاکہ پاکستان میں حکومت کا صدارتی نظام لایا جا سکے


:معاشی انقلاب

ہمیں ایک مختصر وقت کیلئے بظاہرمعاشرتی معاشی نظام کی جانب دوبارہ لوٹنا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا جو ہمیں اس بد قسمت شدید بڑھتی مہنگائی کے برے چکر سے باہر نکال سکے جس سے ہم گزر رہے ہیں

جیسا کہ لوگ جانتے ہیں کہ معاشی سر گرمیاں دولت اورمالیاتی امور کی پالیسیوں کی مدد سے جاری رکھی جاتی ہیں۔ مالیاتی پالیسی کو حکومت کی ایگزیکٹیو برانچ (انتظامی شعبہ) چلاتی ہے۔ جبکہ رقم سے متعلق اموراسٹیٹ بینک آف پاکستان چلاتا ہے۔

مالیاتی پالیسی کیلئے مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مثالی طور پرآمدن اور اخراجات کا توازن ہے۔ خسارہ بجٹ ہونا تقریباً درست ہے کہ اگریہ معاشی ترقیاتی منصوبوں کو چلانے کیلئے کیا جائے۔ تاہم پاکستان میں یہ مسئلہ دودھاری تلوار ہے۔ ایک طرف تو آمدن (ریونیوز) غیر موبوط ٹیکس قوانین کے ساتھ ساتھ ٹیکس جمع کرنے کے مسائل کیوجہ سےانتہائی کم ہیں۔ دوسری طرف، اخراجات میں بدعنوانی ہے۔ ان عوامل کا نتیجہ کثیر خسارہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اورجواباً غیر محتاط انداز میں اندرونی اور بین الاقوامی طور پر قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سےہم ایک ایسی حالت میں جاپہنچتے ہیں جہاں ہمیں اپنی پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے دوسروں کے احکامات کی تعمیل کرنا پڑتی ہے۔

رقم و مال سے متعلق پالیسی کے معاملے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ افراط زر کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے رقم کی گردش کو قابومیں رکھے گا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہےکہ افراط زر کثیر طلب کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تاہم، پاکستان کے معاملے میں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ افراط زر بہت زیادہ رقم کی گردش یا بے انتہاء طلب کا زبردستی نتیجہ بالکل نہیں ۔ ہمارا معاملہ بد قسمتی سے بالکل متضاد ہے۔ ہمارے معاملے میں افراط زر کی وجہ، اشیاء کی فراہمی میں کمی ہے۔

ہمارےغریب لوگ بنیادی ضروریات خوراک، گیس، بجلی سی این جی وغیرہ کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو وہ بڑھتی مہنگائی کے دبائو کو کیسے جھیل سکیں گے؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود بڑھا کراوررقم پر قابو پانے کے دیگر طریقہ کار اختیار کرکے افراط زرپر قابو پانے پر توجہ دیتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میںرقم کو میسر کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی سرمایہ کاری کی جا سکے، بنیادی ضروریات کو میسر کیا جائے۔ اور ملازمتیں پیدا کی جائیں۔

ہمیں اشیاء کی فراہمی کی جانب سے مزاحمتوں کا خاتمہ کرنا ہو گا تاکہ غریب لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ ہمیں اپنے اس شعبہ پر انتہائی کڑی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ہمارے لوگوں کو غذا ملتی ہے۔ اور تب خوراک کا بچ جانے والا حصہ ملازمتوں کو پیدا کرنے پر استعمال کرنا چاہئیے۔ مثلاً فوڈ پراسیسنگ کی صنعتیں وغیرہ۔

یہ کام شروع کرنے کیلئےہمیں پیداواری عوامل کوجو اس شعبہ سے متعلق ہیں مثلاً بیج، کھادیں، ٹیکنالوجی اور وافر طور پر میسر پانی وغیرہ کیلئے بے انتہاء امداد (سبسڈی) دینی پڑے گی۔ فصلوں کو لازماً بہتر انداز مین اگا یا جانا چاہئیے اور کسانوں کو ترغیبی محرکات دیے جانے چاہئیں کہ وہ کس وقت کیا اگائیں؟

اس بارے میں سوچیں۔ اگر ہمارے عوام کو مناسب طور پرغذا نہ دی جائے تو وہ کتنے بارآور یا نتیجہ خیزثابت ہو سکتے ہیں؟

ہمیں انجمادی یعنی ٹھنڈے گودام تعمیر کرنے چاہئیں تاکہ ہم اس وقت تک اپنی خوراک کو محفوظ رکھ سکیں جب تک نئی فصلیں نہ اًجائیں اور جب نئی فصل آنے والی ہو،تب پراسس شدہ خوراک کو بیرون ملک بھیج دینے کی اجازت دی جائے۔ بالکل سادہ بات کہ ہم خوراک سے متعلق اشیاء کو بیرون ملک بھیجنے کی اجازت نہیں دے سکتے جب تک ہمارے اپنے گھر میں خوراک کی کم فراہمی کے باعث شدید افراط زر ہو ۔ کسی بھی خام مال کی بیرون ملک بھیجنے کی اجازت نہ دی جائے۔ صرف اور صرف جدت کی حامل اشیاء یا پیداوارمثلاً ٹیکسٹائل/گارمنٹس،پراسیس شدہ غذا(اپنی اندرونی ضروریات سے بڑھ کر)، چمڑے کی ا شیاء، وغیرہ کو ہی اجازت دی جانی چاہئیے۔ ہمیں اپنے وطن میں ملازمتیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں لازماً پیٹرول/سی این جی/بجلی/گیس وغیرہ پر امداد (سبسڈی) دینی چاہئیےچاہےکوئی کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو مثلاًآئی ایم ایف۔ ان اشیاء کی بڑھتی قیمتیں تمام صنعتوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ ہمیں ان کی کمی کو پورا کرنے کیلئے متبادل طریقہ کار بھی دریافت کرنے چاہئیں۔

ہمیں تحقیق اور جدت کی حوصلہ افزائی کیلئےسنجیدہ کوششیں کرنا چاہئیں۔ تحقیق و اختراح معاشی ترقی کے دو بنیادی عناصر ہیں۔

نئی اشیاء لازماً بنائی جانی چاہئیں اور انہیں برآمد کرنا چاہئیے۔ زیادہ تر ہمارے برآمد کنندگان آپس میں ہی مقابلے میں الجھے رہتے ہیں چنانچہ وہ انتہائی کم فائدہ ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ اسطرح وہ کم معیاری اشیاء کی برآمد شروع کر دیتے ہیں۔

انفرا سٹرکچر کی تعمیر کی شدید ضرورت ہے۔اس سے افراط زر کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ اس کی مدد سے گاہکوں تک اشیاء تیزی سے پہنچیں گی اوردولت کی تقسیم نو ہو گی جبکہ کم ترقی یافتہ علاقے بھی ترقی کریں گے۔

تعلیم کا بجٹ بیس ۲۰فیصد بڑھانا از حد ضروری ہے۔ موجودہ سکولوں کی حالت بہتر کی جانی چاہئیے۔ ایسے فنی سکول قائم کیے جانے چاہئیں جہاں نوجوان ایک ہی وقت میں سیکھ سکیں اور کما بھی سکیں۔ کیونکہ طلباء کی سکول چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ غریب والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کام کاج کرکےخاندان کی مالی معاونت کریں۔

ہمیں لازماً غریب کسانوں میں زمین تقسیم کر دینی چاہئیے۔ اس سے مقاصد حل ہو جائیں گے ایک تو یہ کہ غریب کسان اپنے لئےخود کمانے کےقابل ہو جائیں گے اور دوسرااور انتہائی اہم جاگیرداروں کے سیاسی اثر و رسوغ کا بادل بھی چھٹ جائے گا۔

اگر پوچھا جائے کہ ہم کس طرح سے ان تمام منصوبوں کیلئے مالی ادائیگیاں کر سکتے ہیں؟ تو سب سے پہلے ہمیں دولت ضائع کرنے والےمنصوبوں کو بالکل روکنا ہو گا اور رقم کو درست سمت میں لگانا ہو گا۔ دوسرے ٹیکس قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے انہیں بلا کسی تعصب یکساں طور پرلاگو کیا جانا چاہئیے تاکہ ٹیکس کا دائرہ اختیاربڑھایا جاسکے۔


:معاشرتی انقلاب

قوم کی موجودہ ذہنی کیفیت جس کا نتیجہ ہر سطح پر، بشمول انفرادی طور پر، بیورو کریسی اور حکومت میں بد عنوانی کی صورت میں نکل رہا ہے، کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔

جب تمام ضرورتیں پوری ہو جائیں تو لازمی ہے کہ تمام انفرادی لوگ کسی ایک اچھے کام پر توجہ مرکوز کریں۔ اور وہ اچھا کام رضاکارانہ خدمات ہیں۔

رضاکارانہ خدمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ کس طرح راہنمائی کرنا ہے، کس طرح پیروی کرنی ہے، خوش اخلاقی جذبہ خدمت، معاشرے اور ملک کیلئے اپنائیت اور ایک شہری ہونے پر فخرکیسے کیا جائے۔ یہ ہمارے غلط رویوں میں تبدیلی لائے گا جیسا کہ تعلیم، صفائی، دوسرے کیلئےلاپرواہی ،اورسب سے اہم دوسروں کے حقوق کو کوئی اہمیت نہ دینا جیسے رویے شامل ہیں۔ یہ انفرادی لوگوں کی مدد کرے گا کہ وہ اچھائی کے ساتھ مصروف عمل رہیں اور وہ باتیں جنھیں معاشرے میں برائی تصور کیا جاتا ہے ان سے دور رہیں۔

رضاکارانہ خدمات لازماً نچلے درجے پر شروع کی جانی چاہئیں جیسا کہ گلیوں (محلوں) سکول اور کالج سے۔ اسطرح یہ لوگ گلیوں سڑکوں کو صاف رکھ سکتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم وغیرہ بھی دے سکتے ہیں۔

دہشت گردی، بد عنوانی اور مجرمانہ سرگرمیاں ختم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ سب سے اہم ملازمتوں کا میسر ہونا ہے۔ لوگوں کو اپنی بھوک کسی نہ کسی طرح مٹانا پڑتی ہے کیونکہ یہ سب انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے روپے پیسے کی کمی کی وجہ سےلوگ غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں ملازمتیں پیدا اور مہیا کرنے کیلئے ہر ممکن کام کرنا ہو گا۔

دوسرے، ہمیں بد عنوانی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف سخت قوانین بنانے، ان کا نفاذ کرنےاورسخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ جوان پولیس کے عملہ کو انتہائی اچھی تنخواہوں پر لیا جائے اور ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ اپنی ملازمتیں پوری تندہی اور ایمانداری سے کرسکیں۔

انقلاب کے تینوں پہلووں کو ایک ساتھ، ایک ہی وقت میں سامنے آنا چاہئیے، تاکہ ہم اس عام سوچ کو ختم کر سکیں کہ جب ایک انفرادی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ "میری انفرادی تبدیلی کس طرح سے مدد کر سکتی ہے جبکہ حکومت میں موجود دیگر لوگ اور بیوروکریسی بد عنوان ہے"۔

اس انقلاب کو متفق الرائے اوراس انداز میں ہونا چاہئیے کہ اسے انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے۔

ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں ہمارے کچھ اچھے دوست بھی ہیں۔ جب وہ دیکھیں گے کہ ہم بہتری اوراپنے آپکو تبدیل کرنے کیلئے کسی ایک منصوبہ پر عمل پیرا ہو گئے ہیں، تو وہ آگے بڑھیں گے اور ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرانے میں ہماری مدد کریں گے

میرا خیال ہے ہم نے بہت سی باتیں کر لیں۔ ٹاک شوز کے میزبانوں کو بھی چاہئیے کہ وہ نئے چہروں کو افق پر لائیں۔ لوگوں کو ان کے بارے میں بتائیں اور ان کے خیالات کے بارے میں بات چیت کریں۔ اور بتائیں کہ وہ ان کی بھلائی کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔


واپس اوپر



کیا پارلیمانی نظام پر مشتمل جمہوری حکومت پاکستان سے بد عنوانی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم اور صلاحیت رکھ سکتی ہے؟

(تحریر شہزاد لطیف، پی ایچ ڈی (سیاسی معیشت دان


پاکستان میں جب ایک وزیرجس کا تعلق اہم اتحادی جماعت سے ہو، کسی بد عنوانی کی بڑی سرگرمی میں پکڑا جاتا ہے۔ تو وہ حکومت کیلئے انتہائی سراسیمگی کا ماحول پیدا کر دیتاہے۔ اسے چھوڑ دیا جاتا ہے یہ دکھانے کیلئے کہ حکومت ملک سے بدعنوانی کی ناگوار زحمت کے خاتمےکیلئے کس قدر کام کر رہی ہے۔ حکومت کا یہ فعل اسے مزید گھمبیرصورتحال سے دوچار کر دیتا ہے۔

تاہم، کیا عہدے سے ہٹایا جانا حکومت کی منشا سے ہے کہ وہ بد عنوانی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ یا محض اپنے آپ کو کسی بڑے اور زبردست خطرے مثلاً حکومت گرنا سے بچانا چاہتی ہے ۔جب اسطرح کا ایک واقعہ ہوا تو تیونس میں صورتحال بہت خراب تھی۔ ہر شخص یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ اسطرح کی صورتحال پاکستان میں بھی درپیش ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اسطرح کے بڑے خطرے سے بچنے کیلئے حکومت نے انتہائی ماہرانہ طور پرعمل کیا۔

اور یہ بھی امید کی جا رہی تھی کہ اسطرح کی کاروائی بد عنوانی کے دیگر کئی معاملات کو پردہ تلے ڈھانپ لے گی۔

جب ایک سیاسی کارکن ایک سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتا ہے اور اس کے لئے انتھک کام کرتا ہے۔ تو اسکے کچھ خواب ہوتے ہیں۔

وہ پارٹی کیلئے وقف کردہ وقت اوراپنے کام کی بدولت بالاخرایک مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ وہ یقیناً ایک وزیر بننا چاہتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں جب اس کی جماعت بطور اکثریتی جماعت یا اتحاد بنا کر اقتدار میں آتی ہے تو وزارت ایک طرح کی ٹرافی بن جاتی ہےجو اسے ملتی ہے۔

اورجب وہ ان حرکتوں کے عوض کوئی عہدہ حاصل کرتا ہےتو اپنی پہنچ اوررسائی کی مدد سے جتنا ہو سکے اتنے کاموں میں ہاتھ پھنسا لیتا ہےاورپھراپنی پارٹی کیلئے سرانجام دی گئی الٹی سیدھی خدمات پر داد سمیٹنے اورانعام حاصل کرنے کیلئے سامنے آ کھڑا ہوٓتا ہے اور انعام کے طور پرکرڑوں روپے کا غبن کرجاتا ہے۔

اسی طرح لوگ کچھ رقم ادھار لے لیتے ہیں اوربیرون ملک چھپانے کیلئے رقم باہر لے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ادھار لی گئی رقم بینک کو واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان میں سے کچھ غیر قانونی اشیاء کیلئے لائسنس لے لیتے ہیں۔ کچھ ایسی زمین لے لیتے ہیں جنھیں فروخت نہ کیا جا سکتا ہو۔

بہت سے انفرادی لوگ جو رقم چوری کرنے یا ادھار لے سکنے میں کامیاب ہوئے ہوں وہ کروڑوں روپے دوسرے ممالک میں غائب کر(چھپا) دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں ایک پارلیمانی حکومت لوٹی گئی رقم واپس لانے کیلئے دو وجوہات کی بنا پر کچھ نہیں کر سکتی۔ اول یہ کہ حکومت کو ایسےانفرادی لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے جو کہ ان کے اقتدار میں رہنے کیلئے لازمی ہے اور دوئم وہ لوگ جو خود ہی حکومت کا حصہ ہوں وہ خود ہی اسطرح کے جرائم میں ملوث ہوں تو کیا جائے اورکون کرے؟

چنانچہ ایسے بدعنوان لوگوں کی سرگرمیوں کی چشم پوشی کرنا حکومت کی مجبوری ہوتی ہے۔


واپس اوپر



ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان اورروزنامہ بزنس ریکارڈر، پاکستان اوبزرور لاہور اور دیگرکئی اخبارات میں چھپنے والا ڈاکٹر شہزاد لطیف کا ایک مضمون ۱۲ ستمبر ۲۰۱۱

واشنگٹن: امریکہ میں موجود ایک پاکستانی معیشت دان نے بتایا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے شامل ہونے کے دس سال بعد، اسکی معیشت افغان سرحد پر بدامنی کی صورتحال کی وجہ سےبری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ چنانچہ اب امریکہ کو اپنی سرمایہ کاری اور تجارتی رسائی کا سہارا فراہم کرنا چاہئیے تاکہ اس کا اتحادی نشونما و ترقی میں رفتارپکڑ سکے۔

اس وقت پاکستان میں معیشت کے مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کر سکے، یہ بات شکا گو سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی معیشت دان ڈاکٹر شہزاد لطیف نے کہی۔

معیشت دان نے مزید کہا "دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ پاکستان کو ایک اہم اتحادی کہتا ہے۔ امریکہ کیلئے اس وقت اپنی بات ثابت کرنے کیلئے لازمی ہے کہ یہ (پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کیلئے)جواب میں(معاشی تناظر میں) ٹھوس اقدامات کرے۔

پچھلے ہفتے اسلام آباد نے امریکہ پر نائن الیون حملوں اوراس کے نتیجہ کے طور پرافغانستان پر چڑھائی کے بعد اس دہائی میں ہونے والے معاشی نقصانات کا اعلان کیا ہے، جو کہ اڑسٹھ(۶۷)ارب ڈالرتک جا پہنچے ہیں۔

ڈاکٹر لطیف واشنگٹن سے خصوصی طور پرچاہتے ہیں کہ وہ پاکستانی مصنوعات کیلئے اپنی منڈیاں کھولے، خاص کر زرعی بنیاد کی حامل مصنوعات جیسا کہ ٹیکسٹائل کیلئے جو پاکستان کی ایک اہم برآمد بھی ہے۔

معیشت دان نے کہا کہ وہ پاکستان کیلئے پچھلے دس سالوں میں ترقی میں کمی کو ایک ترجیحی تجارتی آغازکاری کی سمت منسوب نہیں کرسکتے کیونکہ خطے میں موجود کچھ ممالک کی امریکی منڈیوں میں فراخدلانہ رسائی ہے۔

پاکستان نے نہ صرف افغانستان میں موجود نیٹو اور امریکی فراہمیوں کیلئےایک بنیادی راستہ فراہم کرنے کی خدمات سر انجام دیں ہیں بلکہ اس نےدہشت گردی اورجنگجوئوں کے خلاف مہم جوئی کے باعث تین ہزار پانچ سو اموات اور اپنےمختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں شدید کمی کے ساتھ دہشت گردانہ بم حملوں کا بھی سامنا کیا ہے۔

القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں جنگجووں کو اسلام آباد نے پکڑا ہے، جو ۲۰۰۱ کے بعد کابل میں امریکی قیادت میں فوجوں کے حملہ کے بعد افغانستان سے بھاگ کر پاکستان کے قبائلی علاقں میں پناہ لینے آگئے تھے۔ واشنگٹن میں کارنیگی اینڈوومنٹ فنڈ برائے بین الاقوامی امن نے ایک مطالعہ کے دوران پاکستانی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کیلئے آسان رسائی کے اسی نوعیت کے معاملہ کو پیش کیا، پالیسی بنانیوالوں کو یاد دہانی کرائی گئی کہ روزگار میں اضافہ کی مدد سے متشدد جنگجووں کی التجاپر بھی لوگ کان نہیں دھریں گے۔

’’پاکستانی مصنوعات بھاری قیمتوں کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کیلئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ دیگر کم آمدن میں ٹیکسٹائل مصنوعات بنانیوالی قوموں کا مقابلہ کرے۔۔۔۔۔۔۔ ملکي صنعت کے تحفظ کے حامیوں کے مفاد نے کانگرس کو امریکہ میں قیمتیں کم کرنے سے روکے رکھا ہے۔۔۔۔ چنانچہ پاکستانی پوشاک اور ٹیکسٹائل پر قیمتوں میں تخفیف کرنا پاکستان کیلئے اکسیرثابت نہیں ہو گا بلکہ یہ سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کرے گااور پاکستان میں معاشی ترقی کو بڑھائے گا۔ ‘‘پاکستان میں خطرناک بدفعالیت کو سرگرم ہونے سے روکنا کے عنوان کے تحت کیےگئے مطالعہ میں زور دیا گیا ہے۔

اپنے حصہ کے طورپرڈاکٹر لطیف نے نوٹ کیا کہ سیاسی اور سماجی مسائل کا ااسی فیصد حقیقت میں معاشی مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ ’’ امریکہ کو پاکستان کے انہی معاشی مسائل کو ہدف بنانے کی ضرورت ہےاور چاہئیے کہ نجی کمپنیوں جیسا کہ امریکی امپورٹ ایکسپورٹ بینک کے گارنٹی شدہ قرضہ جات وغیرہ کی مدد سے اس کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کرے۔ ۔ ۔ جب لوگوں کو ملازمتیں ملیں گی تو وہ بدمعاش اور خطرناک عناصر کے اثر کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘ انھوں نے یہ بحوالہ ’پاکستانیوں کی معاشی ترقی کیلئے واشنگٹن کا پرعزم عہد،میںبیان کیا۔

ایک بار جب پاکستان اپنے معاشی مسائل کو قابو میں کر لے، ڈاکٹر لطیف نے مزید بتایا ’تو افراط زرکی روک تھام، انسانی وسائل کی ترقی، ویلیو ایڈڈ مصنوعات اور توانائی کے بحران پر قابو پانے جیسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں‘۔

کاپی رائٹ اے پی پی (ایسوسی یٹڈ پریس آف پاکستان ) ، ۲۰۱۱۔


ڈاکٹر شہزاد لطیف کا ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان سے ایک انٹر ویو، جو روزنامہ بزنس ریکارڈر، پاکستان اوبزرور، سری لنکن نیوز اوردیگر اخبارات میں شائع ہوا۲۱نومبر ۲۰۱۱

پاکستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے امریکہ کو معاونت کا کہا جائے

واشنگٹن ۔۔۔۔ متحدہ ریاست ہائےامریکہ جوافغانستان اورزیادہ ترجنوبی ایشیائی خطے میں امن اور سلامتی لانے کی کوششوں میں مصروف ہے، کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اسے چاہئیے کہ وہ جنوبی ایشیا کے اس ملک کے انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے سر مایہ کاری کرے، ایک سیاسی معیشت دان نے کہا۔

اگر پاکستان کو جنوبی ایشیائی ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک کے مابین ایک تجارتی مرکز کے طور پر خدمات سر انجام دینی ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو لازماً اسلام آباد کی مدد کیلئے ذرائع وقف کرنا چاہئیں، یہاں شاہراہیں، پل اور ریلوے روابط کے ساتھ ساتھ توانائی کے منصوبے قائم کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر شہزاد لطیف نے ایک انٹر ویو میں کہا۔

شکاگو میں رہنے والے پاکستانی ماہر معاشیات نے اس ضمن میں صدر ڈوائٹ آئزن آور کی کامیابی کا تذکرہ کیا، بتایا کہ ۱۹۳۰ میں امریکی راہنما نے بھانپ لیا تھا اور پورے امریکہ میں سڑکیں بنانے کے ایک منصوبے پرعمل پیرا ہو گیا۔ اسطرح انھوں نے پورے امریکہ کے تمام شہروں اور قصبوں کو ایک دوسرے سے ملادیا۔ اس عمل نے امریکہ کو ایک معاشی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس کے علاوہ ،انفراسٹرکچر کی سہولیات امیر اور کم مستفید طبقوں کے درمیان فرق کو ختم کرتی ہیں، جیسا کہ شاہراہوں کا جال ہر ایک کو سہولت دیتا ہے کہ وہ اپنی اشیاء کہیں بھی لے جائیں اور انہیں بنیادی منڈیوں میں متعارف کرائیں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کو اس کے بین الاقوامی دوستوں کے سامنے سڑکوں کے انفراسٹرکچر کے تعمیر کیلئے پیش کیا جانا چاہئیے جس سے نئے معاشی مراکز قائم ہوں گےاور یہ زرعی اور صنعتی ترقی کو تیز کرے گا۔

ڈاکٹر لطیف نے مشاہدہ کیا کہ انفراسٹرکچر کا نیٹ ورک لوگوں کو معاشی مواقع فراہم کرتا ہے اور حقیقی ریاستی افراط زر میں تخفیف لانے میں مدد کرتا ہےاور اس کے ساتھ شہری علاقوں میں نقل مکانی کے دبائو میں کمی لاتا ہے۔ اس کے علاوہ، انھوں نے بتایا، کہ سیاحتی منزلوں تک اچھی اور محفوظ شاہراہیں سیاحتی معاشیات کو فروغ دیتی ہے۔

یہ انتہائی اہم ہے کہ مختلف عوامل مثلاً زراعت، معدنیات، پتھر اور سیاحتی مقامات کو مد نظر رکھے ہوئے انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے حکمت عملی کے ساتھ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ہم اپنے ذرائع کا بہترین استعمال کر سکیں۔ ۔ ۔ اے پی پی

واپس اوپر