PTN: Pakistan Tehreek Nizam




حکومتی ڈھانچہ



 

:ڈھانچہ کی تفصیلات


۔ صدر: ایک فرد ایک ووٹ، جنکی عمریں اکیس (۲۱) سال یا زائد ہوں، کے ذریعے منتخب ہونیوالاصدر، جسے کم از کم ۶۶ فیصد ووٹ ملے ہوں۔

۔ زیادہ سے زیادہ بیس (۲۰) قابل ترین وزراء کی ایک کیبنٹ جسے صدر بلا کسی دبائو ،اپنی پسند کے تحت تعینات کرےگا۔

۔ ڈویژنل ناظمین(ایڈمنسٹریٹرز) میں صوبوں کی تقسیم کی جائے گی۔ جن کا نام مقامی افراد کی مرضی و خواہش کے مطابق رکھاجائے گا ۔

۔ سینیٹ: ہر ڈویژن سے دو ممبران

۔ نمائندگان برائےایوان : ہرڈویژن سے ۱۰ ممبران، ہرممبر ایک سب ڈویژنز کی نمائندگی کرتا ہو۔

۔ ڈویژنل ناظمین: صدر کے تعینات کردہ

۔ ڈویژنل قانون سازباڈی: دس (۱۰) ممبران منتخب ہوں۔ تمام د س (۱۰) سب ڈویژنز سے ہرایک کا ایک نمائندہ

۔ صدر پرمناسب چیک اور بیلنس قائم رکھنے کیلئے پارلیمانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔

۔ ڈویژنل سطح کی قانون ساز باڈیز کے ناظمین پر موثر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی

۔ قوانین کو موثر بنایا جائے گا تاکہ وہ موثر چیک اینڈ بیلنس قائم کریں اور صدروناظمین کو ملکی آئین اور قانون کے خلاف یا اس سے بالادست ہو کرکوئی بھی کام کرنے سے روکیں گے۔

۔ قومی احتساب بیورو، صدر، ناظمین، قانون ساز باڈیز کے منتخب شدہ ممبران ، وزراء، بیوروکریٹس، اور دیگرمجاز افسران پرنظر رکھے گا جن کا سرکاری فنڈز پر اختیار ہو۔

۔ عدلیہ کا ڈھانچہ شفاف، آزاد اور تیز ترین انصاف مہیا کرے گا۔



:وفاقی سطح کی وزارتیں اور ان کے نیچے محکمے


مذہبی اور اقلیتی معاملات: اسلام، اقلیت، انسانی حقوق، سماجی مسائل۔.

فنانس: بجٹ، فنانس، منصوبہ بندی، بینکنگ سیکٹر، اسٹاک ایکسچینج اور آمدنی (ٹیکس/ کسٹمز) مائیکرو فنانس.

علاقائی اور دیگر کلیدی اقتصادی تعاون کے معاہدوں اور برآمدی منڈیوں کو بڑھانا کامرس: ایکسپورٹ پالیسی، کوالٹی کی گارنٹی، دانشورانہ املاک کے تحفظ.

صنعت اور سرمایہ کاری: سرمایہ کاری کا فروغ، ری سائیکلنگ صنعت، معدنیات، کیمیکل، پتھر، فوڈ پروسیسنگ، چمڑا،. ٹیکسٹائل، دستکاری، تیل / گیس، فیشن کی صنعت، سمال انڈسٹری اور دیگر صنعتیں

محفوظ کرنے، کم کرنے، دوبارہ استعمال کرنے کی تعلیم۔-تعلیم:اسکول،فنی تعلیم کے ادارے، اعلی تعلیم، تحقیق / ایجادات، تعلیم بالغاں، اساتذہ کی تربیت اور نصاب کی ترقی.

-نقل و حمل: پی آئی اے، ریلوے، شہری نقل و حمل،بنیادی ڈھانچہ بحالی اور ترقی، روڈ سیفٹی اور ہائی وے پولیس.

۔مواصلات:حکومتیاطلاعات، میڈیا، پی ٹی وی، پیمرا، سماجی تعمیری عمل، جمہوریت، سیاست اور معاشیات کی بنیادی معلومات کے بارے میں عوام کو تعلی

۔توانائی اور پانی: بجلی، متبادل توانائی کے ذرائع (شمسی، کوئلہ، ہوا، لہری، ایٹمی وغیرہ) اور پانی (پانی کے ذخائر کی تعمیر، ندیوں اور نہروںکی دیکھ بھال)، ڈیموں کی تعمیر و مرمت

سیاحت اور ثقافت: سیاحت کی ترقی، قومی پارک، تاریخی مقامات، ورثہ، ثقافت، آرٹس، تھیٹر اور سنیما.

صحت اور انسانی ترقی: صحت، بچوں کی نشوونما، خواتین کے معاملات، آبادی کا کنٹرول، بیت المال اور منشیات کا کنٹرول.

دفاع:دفاعی افواج کے معاملات، آرمی، ایئر فورس، بحری، رینجرز، شہری دفاع اور دفاعی پیداوار.

خارجہ امور: خارجہ پالیسی، کشمیر، اسلامی ممالک، چین، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، افریقہ، یورپ اور مشرق بعید ایشیا / آسٹریلیا.

زراعت: زراعت کے لئے کلیدی منصوبہ بندی، غذائی تحفظ، فصلوں پر کسانوں کو ہدایت، بیج کا اتقا اور فوڈ اسٹوریج.

۔انفارمیشن ٹیکنالوجی: تمام وفاقی، صوبائی اور سب ڈویژنل محکموں کو کمپیوٹرائز کرنا، ریکارڈز کو کمپیوٹر ڈیٹا میں بدلنا، آوٹ سورسصنعت کی ترقی، انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی، آئی ٹی کی تعلیم، بنیادی لیول پر کمپیوٹر / انٹرنیٹ کی فراہمی، آئی ٹی سے متعلق اشیاتیاری کی صنعتیں.

جسٹس: قانون، اٹارنی جنرل اور ایف آئی اے.

اندرونی معاملات: امیگریشن، وفاقی پولیس، زمین کی اصلاحات اور سمندر پار پاکستانی.

ماحولیات:ماحولیاتی مسائل، جنگلی حیات، جنگلات، جانوروں کا تحفظ اور کنٹرول اور صفائی.

متفرق شعبہ جات: کھیل، رضاکاری، این جی اوز کے لئے ڈائریکٹوریٹ.


:نئے مجوزہ حکومتی ڈھانچہ کے فوائد

۔ حکومت کا درجہ بندی یا گروہ بندی پر مبنی نظام۔ جس میں اختیارات کی نقل گیری اورغلط استعمال کا خدشہ نہیں ہو گا۔

۔ حکومت چلانے کا درجہ بندی کانظام حکومتی نظم و نسق ،امور(گورننس) میں بہتری لائے گااورسرکاری نظام بہتر پیداواری نتائج کے ساتھ کام کرے گا ۔

۔ صوبوں کی تقسیم بین الصوبائی اوروفاقی صوبائیت کے موروثی فسادات کوختم کرنے میں مدد دے گا۔

۔۔ صدر کے متعین کردہ ناظمین (نا کہ منتخب شدہ) تاکہ وفاق و ڈویژنز کے مابین کسی قسم کی سیاسی رسہ کشی نہ ہو۔

۔۔ صدر۱ور وزیروں پرچیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے کیلئے ایک خود کارنظام کام کرے گا

۔۔ جب صدر کو ایک شخص، ایک ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ تو حکومت میں غریب اوردرمیانے درجہ کے لوگوں کی بھی اچھی نمائندگی ہو سکے گی۔

۔۔ ہر فرد واحد یہ کہہ سکے گا کہ اس کا راہنما کون ہے؟ بجائے کہ قومی اسمبلی میں کس کی، کتنی نشستیں ہیں

۔ لوگ اسے صدرمنتخب کریں گے جوزیادہ قابل ہوگا نہ کہ اسے جس کے پاس زیادہ دولت اورطاقت ہو گی۔

۔۔ الیکٹورل سسٹم کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ ووٹرز کے حقوق غصب کرتا ہے (اسمیں پارلیمانی نظام کی مماثلت ہے)۔

۔ ملٹری انتظامیہ اپنا کرداراورحدود سمجھے گی ۔ بد عنوان اورموقع پرست سیاستدان فوجی انتظامیہ کو آئینی حدود سے بالاتر ہوکرقدم اٹھانے پرمجبورکرد یتے ہیں۔ مودہ سٹیٹس کو صورتحال میں ملٹری کو الزام نہیں دینا چاہئیے کہ وہ کیا کردارادا کررہی ہے؟

۔ لوٹا کریسی کا کوئی موقع نہیں ہو گا۔

۔ وفاقی اورصوبائی درجہ کی حکومتوںمیں عداوت ختم ہو جائے گی (جیسا کہ صوبے ڈویژنز میں تقسیم ہو جائیں گے)۔

۔ موجودہ نظام کے تحت سیاستدان اپنا صحیح کردارادا نہیں کر رہے۔ جسکی وجہ سے عدلیہ اور فوج کو اپنے عمومی کردارسے باہرآنا پڑتا ہے۔ اس مجوزہ نظام سے انشااللہ اسطرح کا کوئ معاملہ نہیں ہوگا

۔ وفاقی اورصوبائی سطح پروزیروں اورمشیروں پرخرچ ہونے والی دولت کے ایک کثیر حصہ کی بچت ہو گی ۔

۔ بجٹ خسارہ میں کمی لانے کے قابل ہو ں گےاور بہرصورت اپنے قرضے واپس کریں گے۔

۔ حکومت میں کم درجہ بندی کیوجہ سے چھوٹی حکومت بنے گی۔

۔ رسمی عہدے ختم کر دیے جائیں گے کیونکہ ہمارا ملک مالی طور پر سہار نہیں سکتا۔

۔ سیاست کم اور لوگوں کی خدمت زیادہ کی جائے گی۔

۔ حکومت میں کم سے کم تعداد میں لوگوں کی شمولیت کیوجہ سے(بد عنوانی کے کم مواقع ہوں گے) جبکہ پارلیمانی نظام بد عنوانی کو فروغ دیتا ہے۔

۔ بہتر پائیدار نظم ونسق قائم ہو گا۔

۔ پالیسیوں کا یکساں نفاذ ہو گا

۔ حکومت گرنے یا مڈ ٹرم کے ذریعے تبدیلی آنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا

۔ پاکستان کے تمام خطوں کیلئے ایک جیسی پائیدارپالیسیاں اورطرزحکومت قائم ہو گی

۔ ہرفرد واحد اورخطہ کیلئے تعلیم و ترقی کے یکساں مواقع میسر ہو ں گے

۔ ڈویژنل ناظمین ڈویژنل سطح پرپولیس، صفائی کے انتظامات، پارکس، مقامی اوروفاقی قوانین کا نفاذ اور پالیسیاں چلائیں گے۔

۔ ڈویژنل قانون سازباڈی، ناظمین پرچیک اینڈ بیلنس رکھے گی اورمقامی قوانین بنائے گی۔

۔ ڈویژن اورسب ڈویژن سطح کے دفاتر،وزارتوں کیلئے وفاقی پالیسیوں کا نفاذ کریں گے اورایک شفاف، موثراورتیزترین انداز میں فوائد کو نچلی ترین سطح تک مہیا کریں گے۔

۔ ملک بھرمیں یکساں نظام تعلیم اورنصاب (جس میں کچھ تبدیلیاں علاقائی زبان و ثقافت کے لحاظ سے ہوں) ملک بھرمیں جاری ونافذ کیاجائےگا۔

۔ ڈویژنل سطح پر قانون کے نفاذ سے قانون اورنظم و ضبط کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

۔ کسی سینیٹر یاعوامی نمائندے کو خرچ کرنے کیلئے رقم نہیں دی جائے گی، جس سے وہ بد عنوان ہو جاتے ہیں اوراس پیسہ کو لوگوں کی بہتری کے بجائے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے خرچ کرتے ہیں۔

۔ لوگ اسلئے ٹیکس نہیں دینا چاہتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت رقم کا ضیاع کر رہی ہے۔ رقم ضروری امور جیسا کہ تعلیم، معاشرتی خدمات ،ادویات وغیرہ پر خرچ نہیں کی جاتی۔ اس نظام سے یہ خدشات اوررویہ تبدیل ہو جائے گا۔

۔ حکومت کا حصہ بننے کیلئے غریب، درمیانہ طبقہ اورامیرگھرانوں کےافراد کیلئے یکساں مواقع پیدا ہوں گے

۔ حکومت کے مختلف درجات کے مابین عمل کرنے یا غلط عمل کرنےسے متعلق الزام درالزام جیسا کوئی کھیل نہیں رہے گا۔

۔ موروثی سیاست مزید نہیں چلے گی۔ یہ نظام نئے چہروں کو مواقع مہیا کرے گا کہ وہ آگے آئیں اورقیادت سنبھالیں۔

۔ کوئی صوابدیدی، خفیہ یا مشکوک امداد اور اخراجات نہیں اٹھائے جائیں گے، جن کی مدد سے اپنے لئے سیاسی فضا ہموار کر سکیں۔

۔ کم سے کم بیوروکریسی قائم ہو گی

۔ نچلی سے نچلی سطح پر چھوٹی حکومتیں بنیں گیں۔ اسطرح ذیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمہوریت میں حصہ لینے کا موقع ملےگا۔

۔ ذیادہ سے ذیادہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی تاکہ محکموں میں شفافیت لائی جا سکے۔

۔ قومی دولت کی اس چھوٹی حکومت کی اور کرپشن کی کمی کی وجہ سے بہت بچت کی جائے گی۔ یہ رقم حکومتی۔نجی اشتراک سے صنعتیں لگا کرنوجوانوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرکے غربت حتم کریں گے

۔ کوئی بھی غیرضروری ملازمت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی جواباً سیاسی حمایت کیلئے سرکاری اداروں میں نا اہل لوگوں کو بھرتی کیا جائےگا۔

۔ عام لوگوں کو بھی درکاراشیائے صرف مہیا کی جایںگی جو اس حالت میں نہیں ہیں۔ صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنای جایگی۔

۔ تھانہ کلچرحتم ھو گا۔ ھرسب ڈویژن کی اپنی پولیس ہو گی۔ تاکہ عوام کے مسائل فوری اور صحیح معنوں میں حل ہوں۔

۔ جلسے، جلوس اور دھرنے ختم ھو جائیں گے۔جو عوام کے لۓ مشکلات پیدا کرتے ہیں-

ھمیں الیکشن نہیں نیا نظام چاہۓ

لائحہ عمل

کہا جاتا ہے کہ یہ کام مشکل ہے لیکن ہمارے سامنے پاکستان کو بنانے کی مثال موجود ہے۔ ہم نے لاکھوں جانیں دے کر پاکستان کو بنایا تھا۔ یہ کام اس سے زیادہ مشکل تو نہیں۔ انشااللہ اس نظام کو لے کرآئیں گے۔

اس حکومتی ڈھانچہ کا مطالبہ کریں اور دیکھیں کس طرح ہم ان لوگوں کے ساتھ مل کر جو پاکستان میں معاشرتی اورمعاشی بہتری، ہماری خود مختیاری اوراستحکام کیلئے پوری طرح بے لوث، ایمانداراورمخلص ہیں، کی مدد سے طویل عرصہ کیلئے ایک پائیدارحکومت کی تشکیل کرسکتے ہیں۔

آئیے اگلے انتخابات ہونے سے قبل اس نظام کے قیام کا مطالبہ کریں وگرنہ وہی لوگ پھر سامنے ہوں گے جنھوں نے پاکستان کی دولت کو لوٹا ہے اورہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کے خلاف کام کیا ہے۔